"ہوائے شہر وفا شعاراں"

ہوائے شہر وفا شعاراں
ہماری بستی کے پاس آئی تو ہم نے دیکھا
کہ اُسکے دامن میں بوئے مقتل بسی ہوئی تھی

اور اُسکی پھیلی ہوئی نگاہوں میں خوں کی سرخی
چھلک رہی تھی۔
ہماری بستی کے پیڑ ششدر تھے، سرد گلیاں،
مکاں دریچےسبھی تعجب سے تک رہے تھے
عجیب طرز خرام تھا وہ کہ چلنے والے ٹھٹھک رہے تھے!
ہوا چھتوں کے سپاٹ ماتھوں کو چھوکر گزری
تو کھڑکیوں کے نصیب جاگے
کہ آج بستی کی ساری خلقت کواڑ کھولے ہوئے کھڑی تھی
ہر ایک نتھنے پھلا پھلا کر ہوا کی خوشبو کو سونگھتا تھا
کہ جس میں خون کی مہک رچی تھی
تمام سینوں میں ایک خدشہ سوال بن کر دھڑک رہا تھا
تو آج شہر وفا شعاراں نے جو کہا تھا وہ کردکھایا؟
ہوا نے چپکے سے سر ہلایا،
ہوانے چپکے سے سر ہلایا تو کھڑکیوں کے کواڑ کانپے
تو بیبیوں نے کھلے سروں سے امیر مقتل کو بددعا دی
کہ جس کا خوف مہیب بستی کے چہار جانب تنا ہوا تھا
اور اپنے مردوں کو چوڑیاں دیں
کہ انکے ہاتھوں میں کچھ نہیں تھا

ہوا کی پاگل بنانے والی مہک نے دیوارودر سے پوچھا
تمہاری غیرت کو کیا ہوا ہے؟
یہ کن مکینوں میں رہ رہے ہو؟
تمام بستی پکار اٹھی!!!!!
قسم شہیدوں کے بہتے خوں کی
قسم سویروں کی، چاند راتوں کی
آبشاروں کی اور بچوں کی ہم نے مقتل کو چن لیا ہے
قسم ہے ان کی کہ جن کے آنسو ہماری ہستی سے معتبر ہیں
اور جن کے بدن ہمارے لہو سے تخلیق پارہے ہیں
اور ان کی جن کے جوان بوسوں میں سرخ پھولوں کی تازگی ہے
کہ ہم نے مقتل کو چن لیا ہے
ہوائے شہر وفاشعاراں، گواہ رہنا
گواہ رہنا کہ ہم نے خوف مہیب بستی کے بام ودر سے ہٹادیا ہے
ہمارے خوں سے مہک کے اٹھے تو اگلے شہروں کی سمت جانا
انھیں بتانا
وفا کا رستہ سروں کی کثرت سے پٹ گیا ہے
کہ سرفروشی کی ابتدا ہے
انھیں بتانا کہ صØ+Ù† مقتل بنا ہوا ہےکوئے نگارا
ہوائے شہر وفا شعاراں، ہوائے شہر وفا شعاراں
امجد اسلام امجد